حضرت آیت
اللہ العظمیٰ جناتی کی روش اس سلسلے میں
تطبیق اور تفریع پر مشتمل ہے کیوں کہ اس میں اجتہاد کا
ہدف اورمقصد احکام کے کلی اصول اور قوانین کے مصادیق اور فروع
کی پہچان اور ان دونوں کے ما بین ارتباط کو سمجھنا ہے
تفریعی اور تطبیقی اجتہاد در حقیقت اسلامی
اسناد ومنابع میں ریسرچ اور تلاش و کوشش کا نام ہے جسکی بنا پر
زمان ومکان کے لحاظ سے جدید مسائل کے منظر عام پر آنے کی راہیں
ہموار ہوجاتی ہیں ۔ اجتہاد کی اس روش میں
شرعی اسناد و مدارک میں رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ ، مسئلہ کے مختلف پہلوؤں
کو اچھے طریقے سے دیکھا جاتا ہے اس میں احکام کے وہ معیار
و ملاکات جو ذاتی طور پرزمانے کے لحاظ سے احکام کے لئے موضوع قرار پاتے
ہیں ان کی تحقیق ہوتی ہے اور اسی طرح موضوع کے ظاہر
وباطن پر بھی گہری نظر رکھی جاتی ہے اس طرح اگر موضوع کے
قیود و شرائط میں کوئی تغییر واقع ہو تو حکم
میں بھی تبدیلی آجائے گی اور اگر موضوع میں
کوئی تبدیلی نہ آئے تو حکم بھی بدستور باقی رہے گا
کیوں کہ حکم اپنے موضوع سے تعلق رکھتا ہے” حلال محمد حلال الیٰ
یوم القیامة و حرام محمد حرام
الیٰ یوم القیامۃ “ جس طرح معلول کا علت سے اور عرض
کا معروض سے جدا ہونا ممکن نہیں ہے اسی طرح حکم کااپنے موضوع سے جدا
ہونا بھی ممکن نہیں ہے اور موضو ع ،حکم کے لئے علت کی
حیثیت رکھتا ہے اس روش میں موضوع کی ظاہری اور
باطنی خصوصیات اور احکام کے عناوین اور معیار کا
بڑی دقت کے ساتھ جائزہ لیا جاتا ہے ۔ زمان ومکان کا ردوبدل اور
تحول اس کے تغیر اور تحول میں اہم نقش ادا کرتا ہے اگر چہ زمان ومکان
کے تحول کاخود احکام کے تحول میں کوئی نقش نہیں ہے کیوں
کہ زمان ومکان جزو موضوع حکم نہیں ہیں بلکہ اس کے لئے ظرف ہیں
لیکن موضوع یااس کی خصوصیات اورشرائط کے تحول اور حکم کے
ملاک کے تحول میں اثر رکھتے ہیں اسی طرح تطبیق اور
تفریع کے موقع پربھی اثر رکھتے ہیں معظم لہ نے شرعی
دلیلوں کی بنیاد پر باب اجتہاد کے تحول میں ، موضوع اور
اسکے شرائط کے تحول میں ، اور زمان و مکان کی دگر گونی کے سلسلے
میں گرانبہا کتابیں اور مقالات تحریر کئے ہیں جو
قارئین کے لئے بہت مفید ہیں جیسے ادوار اجتہاد و۔۔۔
یہاں
پر ہم تفریعی اورتطبیقی اجتہاد کے ایک نمونہ
کی طرف اشارہ کرتے ہیں شرع مقدس میں کسی چیز
کی خرید و فروخت کا صحیح ہونا اس کی قدر و قیمت اور
مالیت پرمنحصر ہے پرانے زمانے میں خون کی کوئی قیمت
نہیں تھی اس سے حلال اور صحیح فائدہ اٹھانا ممکن نہیں تھا
لہذا اس کی خرید و فروخت بھی حرام سمجھی جاتی
تھی لیکن آج جدید طبی وسائل کی بنا پر خون کے بہت
سے فوائد سامنے آئے ہیں اور اس کی خصوصیات میں
نمایاں طور پر تبدیلی پیدا ہوئی ہے کیوں کہ
اب اس کے ذریعہ مریضوں کو موت کے منہ سے بچایا جا سکتا ہے لہذا
اس کے خصوصیات کی تبدیلی اس کے حکم کی
تبدیلی کا سبب بھی بنتی ہے اور اس کو حرام دلیلوں
کے دائرے سے نکال کر دوسری اصل اور دلیل کے دائرے میں داخل کر
دیتی ہے اور انسان کے اعضاء کی خرید وفروخت کے سلسلے میں بھی
ایسا ہی حکم ہے ۔
|