سائٹ کے اس حصہ
میں حضرت آیت اللہ العظمیٰ جناتی کے نظریات
اور فتاویٰ کا وہ مجموعہ پیش کیا جاتا ہے جو غالبا فقہ امامیہ کی
معاصر تاریخ میں پہلی بار معظم لہ کی طرف سے بیان
ہوا ہے اور اجتہاد کی نئی بنیاد اور تفصیل و تشریح
اور استناد و استدلال کے ہمراہ ہے آپ کے نظریات و آراء کے اس مجموعہ کا پورا
متن یا اس کا خلاصہ بتدریج پیش کیا جائے گا۔
غیر مسلمان
کسی بھی قسم (اہل کتاب ، مشرکین اور ملحدین ) سے تعلق
رکھتے ہوں وہ ذات اور بدن و جسم کے اعتبار سے پاک ہیں اور اگر وہ ان
چیزوں سے پرہیز کریں جو مسلمانوں کے ہاں نجس ہیں تو ان
کی عرضی نجاست بھی ثابت نہیں ہے ۔
مجتہد جس
کی تقلید کی جاتی ہے اس کا مرد ہونا شرط نہیں ہے
۔
وہ مرجع جو
دنیا سے اٹھ گیا ہے جس طرح اس کی تقلید پر باقی
رہنا جائز ہے اسی طرح اس کی ابتدا تقلید کرنا بھی جائز ہے ۔
مجتہد کی
تقلید کرنے کیلئے اس کااعلم ہوناشرط نہیں ہے بلکہ عمومی
طور پر وہ حکم خدا کے استنباط اور استخراج میں ماہر اور استاد تر ہو
۔البتہ دو مطلق مجتہدوں کے درمیان یہ صورت نہ تو مرحلہ اثبات
اور ظاہرمیں قابل مشاہدہ ہے اور نہ مرحلہ واقع اور ثبوت میں ، بلکہ یہ بات کچھ اس طرح ہے کہ
ایک جدید اور نئے مسائل اور تازہ فروعات کواصل موضوعات پر تطبیق
کرنے میں زیادہ ماہر ہے اور دوسرا کم ، جیسا کہ عروةالوثقیٰ کے خطی
حاشیہ پر اس مطلب کو بیان کیا گیا ہے ۔اگر چہ
یہ صورت قابل تصور ہے لیکن اس امر کا تشخیص دینا بہت مشکل
ہے کہ دو میں سے کون مجتہد زیادہ ماہر ہے اور کون کمتر ، اور جو
زیادہ ماہر ہے وہ اعلم اور جو زیادہ ماہر نہیں ہے وہ غیر
اعلم ۔
منشیات
جیسے تریاک ، کو کائین اور ماری جوانا کا استعمال چاہے
کھانے پینے میں ہو یا دھواں کرنے یا شیاف کے
ذریعہ ہو ان کے مختلف نقصانات کے پیش نظرشرعاحرام ہے مگر یہ کہ
ڈاکٹر اس کو بیمار کے لئے تجویز کرے اور اسی طرح
نشیلی چیزوں کا استعمال بھی حرام ہے لیکن اگر
بیمار کا علاج اس پر منحصر ہو تو کوئی حرج نہں ہے ۔
منشیات
کاحمل و نقل اور اس کی خرید و فروخت اگر معاشرے کیلئے نقصان اور
ضرر کا باعث ہو تو حرام ہے ۔
عورت کیلئے
چہرے اور دونوں ہاتھوں کے علاوہ پورے بدن کا نا محرم سے چھپانا واجب ہے لیکن
چھپانے کیلئے کوئی خاص لباس مد نظر نہیں ہے بدن کاچھپانا جس
لباس سے بھی ممکن ہو کافی ہے لیکن اس میں کوئی شک
نہیں ہے کہ چادر تمام عورتوں کیلئے بہترین لباس ہے لیکن
وہ خواتین جو سرکاری اداروں ، ہسپتالوں ،
یونیورسٹیوں یا سیاسی اور سماجی
میدانوں میں مشغول ہیں ان کے لئے اسلامی حجاب کی
رعایت کرنا دوسرے لباسوں کے استعما ل سے زیادہ بہتر ہے کیوں کہ
وہ اسلامی حجاب جس کی رعایت عورتوں پر واجب ہے اس سے وہ بہتر
حفاظت کر سکتی ہیں ۔
اگر منصب قضاوت
کے تمام شرائط عورت میں پائے جاتے ہیں تو وہ اس منصب کو اختیار
کر سکتی ہے ۔ اگر عورت سیاسی ، ثقافتی ، علمی
، ہنری اور ان جیسے دوسرے منصبوں کو حاصل کرنے کی صلاحیت
و لیاقت اور توانائی رکھتی ہے تو وہ اسلامی حجاب کی
رعایت کے ساتھ ان منصبوں پر فائز ہو سکتی ہے ۔
وہ لڑکی جو
اچھائی یا برائی اور مصلحت کو تشخیص دینے پر قادر
ہے اور اس کو اپنے احساسات پر کنٹرول بھی ہے اسکے لئے شادی کرنے کے
سلسلے میں باپ سے اجازت لینا شرط نہیں ہے اور شادی
بیاہ کا اختیار خود اس کے ہاتھ میں ہے۔
نا بالغ
لڑکی کے ساتھ عقد کرنا تا کہ اس کی ماں کے ساتھ محرمیت حاصل
ہوجائے اور جو آج کل رائج ہے ہماری نظر میں صحیح نہیں ہے
کیوں کہ اس میں شادی کیلئے لازمی قصد اور ارادہ
نہیں ہے اور نیز اس سے استمتاع کیلئے جو مدت ہے وہ اسکے عقد
میں موجود نہیں ہے ۔
عادت ماہانہ کے
ذریعہ لڑکی کا بالغ ہونا ثابت ہے لیکن اگر مزاجی عوامل
کی بناپر عادت ماہانہ نہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنی دوسری
رشتہ دار لڑکیوں کی عادت ماہانہ کو مد نظر رکھے اور ان کی عادت
ماہانہ کواپنے بالغ ہونے کا زمانہ قرار دے ۔
اگر عورت کا گھر
سے باہر جانااس کے شوہر کے حق سے منافات رکھتا ہو تو اس کو شوہر سے اجازت
لینا چاہئے ورنہ اس سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے اور
اس صورت میں وہ اسلامی حدود کی رعایت کرتے ہوئے
تعلیم و تعلم اور سیاسی اور سماجی امور کو انجام
دینے کیلئے اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جا
سکتی ہے ۔نیز ماں باپ اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو
دیکھنے کیلئے بھی جاسکتی ہے اور ضروری نہیں
اس کو عقد کے ضمن میں شرط کرے ۔
اگر چہ طلاق مرد
کے ہاتھ میں ہے لیکن بعض ایسے موارد ہیں جن میں
عورت طلاق کے حق کو اپنے اختیار میں رکھ سکتی ہے اور ان
میں ایک مورد عقد کے ضمن میں شرط کرنا ہے اور عسرو حرج
وغیرہ میں بھی ایسا کر سکتی ہے ۔
بچے کی
پرورش اور سر پرستی کا حق دو سال تک اور بچی کی پرورش اور
سرپرستی کا حق سات سال تک ماں کے پاس ہے یہ کوئی حکم
تعبدی نہیں جو قابل اسقاط نہیں ہے بلکہ ایک حق ہے جو ذمہ
داری کا آئینہ دار ہے اور شہری قانون بھی اسی
نظریہ کا مدعی ہے۔
ماں باپ
کیلئے پرورش مطلق طور پر اور بغیر کسی قید کے تشریع
نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ بات اس شخص کی توانائی پر
منحصر ہے جو اس کی پرورش اپنے دوش پر لیتا ہے لہذا اگر ماں یا
باپ اخلاقی ، سماجی ،مذہبی اور دوسرے تمام شرائط کے پیش
نظر اولاد کی پرورش کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں یا اگر
ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں لیکن اچھے طریقے سے
اپنی ذ مہ داری پر عمل نہ کرسکیں تو انکا یہ حق ساقط
ہوجاتا ہے اور حاکم شرع کو یہ حق ہے کہ وہ اس بچے کو کسی دوسرے
حتی کسی تیسرے شخص کے سپرد کردے ۔
اگر نطفہ ٹھہر نے
سے پہلے عورت اپنے آپ کو حاملہ ہو نے سے روک لے تو اس میں کوئی حرج
نہیں ہے ۔
جراحی
یا کسی دوسرے طریقے سے عورت کو بانجھ بنانا جائز نہیں ہے
۔
شوہر کے اسپرم کے
ذریعہ عورت کو حاملہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے
۔لیکن اس میں مقدمات حرام سے استفادہ کرنے میں
پرہیز کرنا چاہیے ۔
اگر عورت کا شوہر
راضی نہ ہو تو اس کو کسی دوسرے کے اسپرم کے ذریعہ حاملہ بنانا
جائز نہیں ہے ۔
اگر عورت کا شوہر
بانجھ یا راضی ہوتو اس کو کسی دوسرے کے اسپرم کے ذریعہ
حاملہ بنانا جائز ہے ۔لیکن مقدمات حرام سے اجتناب ضروری
ہے۔
اگر عورت
کسی دوسرے کے اسپرم سے حاملہ ہو تو بچہ اسپرم والے کا ہو گا نہ اس عورت کے
شوہر کا ، البتہ بچے کی ماں وہی ہے جس سے وہ پیدا ہوا ہے مذکورہ
صورت میں وہ بچہ دوسرے تمام بچوں کے مانند ہے اور و ہ اپنے بھائی
یا بہن یا دوسرے محارم سے شادی نہیں کرسکتا ۔ اور کلی طور پر مصنوعی بچہ بھی
طبیعی بچے کے مانند ہے طبیعی بچے کیلئے جن لوگوں سے
شادی کرنا حرام ہے مصنوعی بچے کیلئے بھی ان سے شادی
کرنا حرام ہے ۔
شوہر کی
مرضی کے بغیر عورت بچہ دار ہو نے سے منع کر سکتی ہے لیکن
مرد عورت کی مرضی کے بغیر اس کو بچہ دار ہونے سے منع نہیں
کرسکتا لیکن اس کی مرضی کے ساتھ کوئی حرج نہیں ہے
۔
مسلمان
کیلئے اہل کتاب ( زرتشتی ، یہودی ، عیسائی )
عورت کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اہل
کتاب عورتوں کے ساتھ عقد دائمی اور موقتی دونوں جائز ہیں
۔
خوشی اور
مسرت کی محفلوں میں عورتوں کا عورتوں کیلئے اور مردوں کا مردوں
کیلئے رقص کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
ایسی
موسیقی جو لہو و لعب اور باطل کلمات پر مشتمل ہو یا انسان کو
یاد خدا سے غافل بنا دے تو وہ حرام ہے ۔
شادیوں
میں ایسا دائرہ لگانا جائز ہے جو رائج ہے حتیٰ بعض گذشتہ
فقہاءاس کو ترک کرنا مکروہ سمجھتے تھے اچھی شادی وہ ہے جس میں
فرح ، مسرت اور خوشیاں ہوں لیکن اس میں ایسی
چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے جو شرع مقدس میں حرام
ہیں ۔
گانے والی
عورتیں جو شادیوں میں پیسہ لیتی ہیں وہ
جائز ہے ۔
بعض سروں اور
دھنوں سے افراد کا خوش اور شاد ہونا حرام نہیں ہے بلکہ اس وقت اس کا سننا
حرام ہے جب کہ وہ انسان سے کلی طور پر اختیار کو سلب کرلے لہذا وہ
آواز یا دھن جو حلال ہے اگر وہ کسی حرام فعل کے ہمراہ ہو تو اس کا
سننا حرام ہوتا ہے۔جیسے طرب آور میوزک ایسی محفل میں بجایا
جائے جس میں مرد اور عورتیں شرعی حدود کی پابندی
کئے بغیر حاضر ہوں یا مہمانی وغیرہ میں
حاضرین طرب آور میوزک بجانے کے ساتھ شراب نوشی میں مشغول
ہوں اس صورت میں بنیادی طور پر ایسی محفل میں
شرکت کرنا حرام ہے لہذا اس میوزک کا سننا بھی حرام ہے ۔
کلاسک میوزک
جیسی سروں کا سننا جو انسان کے اندر خوشحالی اور شادمانی
پیدا کرتی ہیں اور تھکان کو دور کرنے اور آرام بہم پہنچانے
میں مؤثر ہیں اشکال نہیں ہے ۔
گروہی شکل
میں مناسبات کے مواقع پر ترانہ پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں
ہے۔
محفل جشن اور
تقریر کے موقع پر تشویق کی غرض اور خوشحالی کے عنوان سے
تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
آلات لہو کا
استعمال اچھی آواز پیدا کرنے کیلئے جو بہترین مضمون اور
مذہبی ، عرفانی ، اخلاقی ، سماجی اور سیاسی
اشعار پر مشتمل ہو کوئی حرج نہیں ہے لیکن انکا استعمال
لہوی آواز پیدا کرنے میں حرام ہے اگر ان کا مضمون باطل اشعار پر
مشتمل ہو ۔
آج کل
اسلامی حکومت میں لہوی آلات ، مشترک آلات میں شمار ہوتے
ہیں ۔
ایسے
لہوی آلات کی خرید و فروش جو لہو سے مختص ہیں حرام ہے
لیکن جو آلات لہوی مشترک ہیں اگر ان کا استعمال حلال کاموں
میں ہو تو ان کی خرید و فروش میں کوئی اشکال
نہیں ہے لہذا ریڈیو جو حلال اور حرام دونوں کاموں میں
استعمال ہوتا ہے میری نظر میں اس کی خرید و فروش
جمہوری اسلامی سے پہلے بھی حرام نہیں تھی
کیونکہ آلات لہو اور وہ آلات جو لہو میں استعمال ہوتے ہیں ان
میں فرق ہے لہو میں استعمال ہونے والے آلات اس سے مخصوص ہوتے
ہیں ۔
آج کل حکومت
اسلامی میں جو مشہور اور معروف آلات لہو ہیں وہ مشترک آلات
میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کا استعمال ایسی
آوازیں پیدا کرنے میں ہوتا ہے کہ جو اچھے اشعار اور
بہترین مضامین پر مشتمل ہوتی ہیں لہذا ان کی
خرید و فروخت میں کوئی اشکال نہیں ہے جیسے
ریڈیو ،
ٹیلیویزن
، لہذا اگر کوئی شخص مذکورہ آلات کو حرام کاموں میں استعمال
کیلئے خریدے یا باطل آوازیں پیدا کرنے کیلئے
تو حرام ہے لیکن اگراچھے اور مفید اشعار سننے کیلئے خریدے
تو مباح ہے ۔
طرب اور
لہوی آلات جو بچوں میں آرام پیدا کرنے کی غرض سے بنائے
جاتے ہیں ان کی خرید و فروخت میں کوئی اشکال
نہیں ہے ۔
انسان اپنے
اعضاءکو ایسے موارد میں بیچ سکتا ہے جہاں انکا قطع کرنا جائز ہے
لیکن ایسا نہ کرنا بہتر ہے۔ مذکورہ جائز موارد میں اجرت
پر دینے اور کچھ مبلغ لینے میں کوئی حرج نہیں
ہے۔
اعضاءکے کاٹنے کا
دیہ کاٹنے والے پر ہے لیکن ڈاکٹر بیمار کے ساتھ طے کر سکتا ہے
کہ وہ دیہ خود ادا کرے ۔
اگر انسان اپنے
بدن کے بعض اجزاءکسی نیاز مند کو دینے کی وصیت کرے
تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
زندہ شخص
کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کسی دوسرے زندہ
شخص کو بخش دے۔
اگرنجس
العین حیوان کے بدن کے کسی حصے کوضرورت مند انسان کے بدن
میں پیوند لگائیں توکوئی حرج نہیں ہے کیونکہ
اس میں حیات آجانے کے بعد وہ اسکے بدن کا جزو بن جائے گا اور وہ پاک
ہے ۔اسی طرح اگر زندہ یا مردہ انسان کے بدن کاکوئی جزو
دوسرے انسان کے بدن میں لگایا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اس میں
حیات حلول ہونے کے بعد وہ اس کے بدن کا جزو بن جائے گا ۔
اگر کوئی
شخص اپنے بدن کا کوئی عضو جیسے پھیپھڑے کسی دوسرے کو
دینا چاہے یا وصیت کرے کہ اس کے مرنے کے بعد ان کو مفت یا
پیسہ لیکر کسی کو دیدیں تو کوئی اشکال
نہیں ہے ۔
کیرم بورڈ
، تاش اور شطرنج جیسے آلات کے ساتھ کھیلنا اگر فکری ورزش
کیلئے یا ریاضی کی بنیاد مستحکم بنانے
کیلئے یا تفریح کیلئے ہو اور اس میں ہار جیت
کی شرط نہ ہو تو اشکال نہیں ہے ۔اگر چہ یہ قمار کے آلات
سے خارج نہ بھی ہوئے ہوں ۔
مجسمہ بنانا جو
آجکل اچھے ہنر اور فن کے طور پر مشہور ہے اور برے تصور ات اور خالق کی
تشبیہ اور شرک جیسی آلودگی سے پاک ہے زمانے کے انقلاب اور
شرائط کی تبدیلی کی بنا پر اس کی حرمت و کراہت کا
ملاک اور معیار بھی بدل گیا ہے ۔لہذا اس کے بنانے
میں اب کوئی اشکال نہیں ہے ۔
اگر انسان کے پاس
صرف اتنا سرمایہ ہو جس کے منافع اور در آمد سے وہ زندگی بسر کرسکے تو
اس پر خمس نہیں ہے لیکن اگر اس سے زیادہ ہو تو اس پر خمس واجب
ہے ۔
ہماری نظر
میں ادنیٰ الحل جس طرح عمرہ مفردہ کا احرام باندھنے کیلئے
مکہ والوں کیلئے میقات ہے اسی طرح جو لوگ جدہ کے راستے سے مکہ
آتے ہیں ان کے لئے اور نیز عمرہ تمتع کرنے والوں کیلئے
بھی میقات ہے ۔
قربانی
منیٰ میں کرنا چاہئے لیکن اگر وہاں کوئی ضرورت مند
انسان موجود نہ ہو جو قربانی کے گوشت سے فائدہ اٹھا سکے تو نائب کے
ذریعہ اپنے شہر میں یا ایسی جگہ قربانی کرنا
جائز ہے جہاں فقیر یا ضرورت مند انسان موجود ہوں ۔
رمی جمرات
میں جو سنگریزے پھینکے جاتے ہیں اگر وہ اس جگہ لگیں
جہاں ستون واقع ہے تو کافی ہے کیونکہ وہ جگہ اور محل ( کہ جہاں
شیطان ظاہر ہوا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند حضرت اسماعیل
علیہ السلام کو قربانی کیلئے قربان گاہ کی طرف لے جا رہے
تھے تو انھوں نے شیطان کو اس جگہ دیکھا اور وہ خدا کی طرف سے
مامور ہوئے کہ وہ اس کو پتھروں کے ذریعہ وہاں سے دور کریں ) علامت اور
نشانی ہے نہ کہ وہ ستون ، کیوں
کہ اس ستون کا نہ تشریع کے وقت کوئی وجود تھا نہ صحابہ کے دور
میں اور نہ تابعین کے زمانے میں ۔
بعض احادیث
کا مقتضی یہ ہے کہ مہنگائی کے دور میں ایک کارواں
کیلئے ایک جانور کی قربانی کرنا کافی ہے ۔
لیکن مہنگائی اور اس کے بعض خصوصیات کا معیار قابل تامل
ہے ۔
ایک
قربانی عام صورت میں چند افراد کیلئے مشترکہ طور پر کافی
نہیں ہے لیکن اضطراری صورت میں ایک کارواں
کیلئے ایک عدد قربانی کرنا کافی ہے جو کہ حدیث کا
مقتضی ٰ ہے
۔
|